* بے نیازانہ ہر اک راہ سے گزرا بھی کر *
غزل
بے نیازانہ ہر اک راہ سے گزرا بھی کرو
شوقِ نظارہ جو ٹھہرائے تو ٹھہرا بھی کرو
اتنے شائستہ ادب محبت نہ بنو
شکوہ آتا ہے اگر دل میں تو شکوہ بھی کرو
سینہ عشق تمنائوں کا مدفن تو نہیں
شوقِ دیدار اگر ہے تو تقاضا بھی کرو
وہ نظر آج بھی کم معنی و بیگانہ نہیں
اُس کو سمجھا بھی کرو اس پہ بھروسہ بھی کرو
تابہ کے شکوہ بے مہری ساقی اطہر
کبھی خود بڑھ کے کوئی جام اٹھایا بھی کرو
٭٭٭
|