* کبھی وہ بد گماں دیکھے گئے ہیں *
غزل
کبھی وہ بد گماں دیکھے گئے ہیں
کبھی ہم سرگرداں دیکھے گئے ہیں
کبھی اک اشک کو ترسی ہیں آنکھیں
کبھی دریا رواں دیکھے گئے ہیں
کبھی موسم کی بے کیفی کا شکوہ
کبھی خود اک سماں دیکھے گئے ہیں
کبھی نا آشنا ئے لفظ و معنی
کبھی اک داستاں دیکھے گئے ہیں
وہ ذرے جو ترے قدموں میں آئے
وہ ذرّے کہکشاں دیکھے گئے ہیں
جہاں تیرے سوا کچھ بھی نہیں ہے
کبھی ہم بھی وہاں دیکھے گئے ہیں
گل و لالہ مہ و انجم بھی اکثر
ہمارے ہمزباں دیکھے گئے ہیں
بہت ہی مہرباں پایا ہے اُن کو
وہ جب نا مہرباں دیکھے گئے ہیں
جدھر تم چل دئیے ہو آج اطہر
وہاں دل کے زیاں دیکھے گئے ہیں
٭٭٭
|