* ریشم و اطلس و کمخواب، نہ زر مانگتے *
ریشم و اطلس و کمخواب، نہ زر مانگتے ہیں
ہم تو بس تُجھ سے فقط رِزقِ نظر مانگتے ہیں
دیدہ و دل کی یہ ضد بھی ہے عجیب، دیکھیے تو
کُوئے جاناں کی طرف اذنِ سفر مانگتے ہیں
وہ جو پڑنے نہیں دیتے تھے پَروں پر پانی
اب وہ اُڑنے کے لیے بال نہ پَر مانگتے ہیں
ہم تو وہ ہیں کہ جِنہیں کاٹ رہے ہوتے ہیں
اُنہیں اشجار ہی سے برگ و ثمر مانگتے ہیں
یہ جو انصاف طلب لوگ کھڑے ہیں صاحب
کیا کریں آپ سے اب، آپ کا سَر مانگتے ہیں
یہ دریچے، مری آنکھوں کے دریچے خاور
رُخِ جاناں کی جھلک بارِ دگر مانگتے ہیں
ایوب خاور
|