* منزل قطار میں ہے شبِ انتظار کی *
منزل قطار میں ہے شبِ انتظار کی
آئی نہیں ہے باری کسی بے قطار کی
نفرت کی یہ کہانی جو پھیلی ہے چار سو
میرے دیار کی ہے نہ تیرے دیار کی
ہجرت کے بعد دارو رسن تک پہن گئے
صورت نظر نہ آئی کسی غمگسار کی
میں ڈوب تو گیا ہوں مجھے ڈوبنا ہی تھا
لیکن پھر اس کے بعد ندی کس نے پار کی
آئینہ کرچیوں میں بٹا ہے تو یہ کُھلا
پتھر بدست کو بھی ضرورت ہے پیار کی
تیرو کماں بدوش جوانی کے ساتھ ساتھ
عادت جوان ہو گئی ، ہوگی شکار کی
دن رات اپنے خون میں نہانے کے باوجود
پوشاک میرے تن پہ ہے گردو غبار کی
اعظم نہال غم کے قلم کی قسم مجھے
میں لکھ نہیں سکوں گا کہانی بہار کی
|