غزل
عزیز بلگامی…09900222551
ہے رسم و راہِ خوشامد کو چھوڑنے کا خیال
اُبھر رہا ہے دِلوں کو جھنجوڑنے کا خیال
دِلوں کے بیچ روابط کا ہے خیال ہمیں
دِلوں میں اُن کے، دِلوں کو ہے توڑنے کا خیال
ستاتا ہے بھی، کبھی منصفو! ستم کے بیچ
ستم گروں کی کلائی مروڑنے کاخیال
بنا ہی دیتا ہے مجبور ، ظلم ہی کا دبائو
کسے پسند ہے بستی کو چھوڑنے کا خیال!
جو کھینچتی ہے ، رُخ ِزن سے چادرِ عصمت
ستاتا ہے اُن آنکھوں کو پھوڑنے کا خیال
تباہیوں پہ عزیزؔ اب یہ تبصرے کب تک
اُبھارئیے، رُخ ِ طوفاں کو موڑنے کا خیال