سمندر " نظم "
قُلزم نیلگوں تیرے گرداب
رقص فرمائیں تیز تر ہو جائیں
اِک ذرا اور بے خبر ہو جائیں
موج پابندِ پیرہن کب ہے ؟ ؟
یہ کنارہ تیرا وطن کب ہے ؟
یہ کنارہ تیرا وطن کب ہے ؟
اک طفلِ شریر کے ماند
تو نے پہنچائی کشتیوں کو گزند
بھینچ کے مٹھیوں میں چھوڑ دیا
اِک کھلونا سمجھ کر توڑ دیا
کتنی پتواروں کے کھُلے بازو
جزب کرتے رہے تیری خوشبو
موج در موج تیری بے تابی
لم یزل بے کراں یہ بے خوابی
روحِ شام و سحر سنورتی رہی
تجھ سے سرگوشیاں سی کرتی رہی
گیت ملاحوں کے ، ہواؤں کے راگ
منزلوں کی حدہں ، سفر کا سہاگ
زہ کمانیں سی بال ، افشاں تیر
تیری آبی ہتھیلیون کی لکیر
منتشر ہیں کہانیاں کیا کیا
وقت کی بےکرانیاں کیا کیا
قلزم نیلگون تیرے گرداب
عزیز حامد مدنی