غزل
عذرا نقوی
ابھی تو پچھلی عنایت کا زخم تازہ ہے
سنا ہے اک نئی سازش کا پھر ارادہ ہے
کدورتوں کے سبق، جھوٹ کے جدید نصاب
نہ جانے کون سی تاریخ کا اعادہ ہے
وہ گھڑ رہے ہیں نئے زہر میں بجھے الفاظ
یہ نفرتوں کہ لغت سے ہی استفادہ ہے
یہ کہہ کے لوگوں نے قبلے بدل لئے اپنے
یہی تو مصلحت ِ وقت کا تقاضہ ہے
عجیب لہجے میں حق مانگنے لگے ہیں لوگ
کہ احتجاج ہے کم ، بے بسی زیادہ ہے
نہ ہو تباہ، یہ صد رنگ مشترک تہذیب
مرے وطن ، مری تاریخ کا اثاثہ ہے
کہاں سے لاؤں ،سہانی، مدُھر ، لطیف غزل
مرے مزاج میں اب برہمی زیادہ ہے