* جہاں ویرانہ ہے پہلے کبھی آبادیاں *
غزل
٭………بہادر شاہ ظفر
جہاں ویرانہ ہے پہلے کبھی آبادیاں گھر تھے
شغال اب ہیں جہاں بستے کبھی بستے بشریاں تھے
جہاں چٹیل ہے میداں اور سراسر ایک خارستاں
کبھی یاں قصر و ایواں تھے چمن تھے اور شجریاں تھے
جہاں پھرتے بگولے ہیں اڑاتے خاک صحرا میں
کبھی اڑتی تھی دولتِ رقص کرتے سے مریاں تھے
جہاں ہیں سنگریزے ، تھے یہاں یاقوت کے تودے
جہاں کنکڑ پڑے ہیں اب ، کبھی رلتے گہریاں تھے
جہاں سنسان اب جنگل ہے اور ہے شہرِ خموشاں
کبھی کیا کیا تھے ہنگامے یہاں اور شور شریاں تھے
جہاں اب خاک پر ہیں نقشِ پائے آہوئے صحرا
کبھی محوِ تماشا دیدۂ اہل نظریاں تھے
ظفرؔ احوال عالم کا کبھی کچھ ہے کبھی کچھ ہے
کہ کیا کیا رنگ اب ہیں اور کیا کیا پیشتریاں تھے
******* |