* قصہ کسی نے چھیڑا تھا کیا کوہ طور کا *
غزل
قصہ کسی نے چھیڑا تھا کیا کوہ طور کا
کیوں دل ایسا ہوگیا میرے حضور کا
کہہ دو ماہ و نجوم سے نکلیں نہیں ابھی
یہ وقت بام پر ہے کسی کے ظہور کا
کیسی تھکن کہاں کی تھکن بے خبر تھے ہم
راتوں میں چل رہے تھے کہ رستہ تھا دور کا
دیوانگی کا کام ہے یہ ہوش کا نہیں
اس عشق میں تو کام نہیں ہے شعور کا
اس کو بتائے ہم نے خدوخال جب ترے
واعظ نے تذکرہ کیا جنت کی حور کا
خوش فہمیوں میں مبتلا اتنا نہیں رہو
ہوتا سدا ہے سر میاں نیچا غرور کا
گزرا تھا مہ کدے سے فقط اور دیکھیئے
فائیز تو جاننے لگا مطلب سرور کا
****** |