* جب کرن آفتاب ہوتی ہے *
غزل
جب کرن آفتاب ہوتی ہے
روشنی بے حساب ہوتی ہے
رنگ جینے کے ماند پڑتے ہیں
جب طبیعت خراب ہوتی ہے
مل جو جائے وفا تو نعمت ہے
نہ ملے تو عذاب ہوتی ہے
جسم و جاں کے وسیع سمندر میں
دل کی ہستی حباب ہوتی ہے
جاں بلب تشنہ لب مسافر کو
ہر روش اک سراب ہوتی ہے
جب شرافت ہو خون میں شامل
تب نظر با حجاب ہوتی ہے
عمر بھر ہوش پھر نہیں رہتا
گر پرانی شراب ہوتی ہے
رات بھر کیوں جگائے رکھتی ہے
ایسی خواہش جو خواب ہوتی ہے
اس کی نظریں سخن کی نظریں ہیں
وہ سراپا خطاب ہوتی ہے
جب بھی پڑھتا ہوں میں اسے فائیز
وہ کھلی اک کتاب ہوتی ہے
***** |