* فسانہ غم کا سنایا تھا مسکراکے مجھ® *
غزل
فسانہ غم کا سنایا تھا مسکراکے مجھے
ابھی ابھی جو گیا ہے بہت رُلا کے مجھے
نہ جانے کون تھا اور وہ کہاں سے آیا تھا
مٹایا فاصلہ دم بھر میں پاس لاکے مجھے
تھے سوکھے ہونٹ بھی اُس کے ، زبان بھی گھائل
کیا نہ شکوہ مگر زخمِ دل دکھا کے مجھے
جو میں نے کھویا ہے پانا اُسے ہے ناممکن
تسلیوں میں نہ الجھائو یوں مٹا کے مجھے
جھکاتا سر کو جو سجدے میں خود کو پالیتا
بتوں کے آگے ملا کچھ نہ سر جھکا کے مجھے
گناہ کتنے ہیں کس کی سزا ہے کیا بے غم
جو چاہو دیکھ لو تم آئینہ بنا کے مجھے
بے غمؔ وارثی
245/1, Belilious Road, Tikiapara
Howrah-711101
Mob: 9339105539
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|