* یہ بُت پھر اب کے بہت سر اٹھا کے بیٹھ *
یہ بُت پھر اب کے بہت سر اٹھا کے بیٹھے ہیں
خدا کے بندوں کو اَ پنا بنا کے بیٹھے ہیں
ہمارے سامنے جب بھی وہ آکے بیٹھے ہیں
تو مسکرا کے نگاہیں چُرا کے بیٹھے ہیں
وہ مسکراتے ہیں رَہ رَہ کے دیکھ کر مجھ کو
کلیجہ ہو گیا زخمی فراق ِ جاناں میں
ہزاروں تیر ستم دل پہ کھا کے بیٹھے ہیں
تم ایک بار تو رُخ سے نقاب سرکادو
ہزاروں طالبِ دیدار آکے بیٹھے ہیں
اُبھر جو آتی ہے ہر بار موسمِ گل میں
اک ایسی چوٹ کلیجے میں کھا کے بیٹھے ہیں
یہ بُتکدہ ہے اِدھر آئیے ذرا بسملؔ
بتوں کی یاد میں بندے خدا کے بیٹھے ہیں
پسند آئے گی اب کس کی شکل بسملؔ کو
نظر میں آپ جو اس کی سما کے بیٹھے ہیں
********************* |