* نگاہِ قہر ہوگی یا محبت کی نظر ہوگی *
غزل
بسمل عظیم آبادی
نگاہِ قہر ہوگی یا محبت کی نظر ہوگی
مزہ دے جائے گی دل سے اگر اے سیم بَر ہوگی
تمہیں جلدی ہے کیا جانا ابھی تو رات باقی ہے
نہ گھبرائو ذرا ٹھہرو کوئی دم میں سحر ہوگی
ابھی سے سارے عالم میں تو اک اندھیر برپا ہے
نہ جانے کیا غضب ڈھائے گی جب یہ تا کمر ہوگی
نہ لائے گی تو کیا بے چین بھی ان کو نہ کر دے گی
ہماری آہ کیا کمبخت اتنی بے اثر ہوگی
ہم اس کو دیکھ لیں گے اور وہ ہم کو نہ دیکھے گی
نگاہِ یار کیا محفل میں اتنی بے خبر ہوگی
چلا جاتا تو ہوں بہرو پ بن کر ان کی محفل میں
کہوں گا کیا رسائی گر کہیں منہ دیکھ کر ہوگی
نگاہِ لطف سے دیکھا گا مجھ کو ایک جہاں تو کیا
اگر تم دیکھ لوگے میری قسمت عرش پر ہوگی
اسیری میں بھی یادِ گل کرے گی اس طرح بلبل
قفس کے در پہ سر ہوگا، سوئے گلشن نظر ہوگی
جو بے جُرمی پہ بھی بسملؔ کو تم نے کر دیا بسمل
بتائو گے بھلا کیا حشر میں پُرسش اگر ہوگی
****** |