* ساقی ہے کیا، شراب کیا، سبزہ زار کی *
غزل
٭…………چکبست
دل ہی بجھا ہوا ہو تو لطفِ بہار کیا
ساقی ہے کیا، شراب کیا، سبزہ زار کیا
یہ دل کی تازگی ہے وہ دل کی فسردگی
اس گلشن جہاں کی خزاں کیا بہار کیا
دیکھا سرورِ بادہ ہستی کا خاتمہ
اب دیکھیں رنگ لائے اجل کا خمار کیا
دُنیا سے لے چلاجو تو حسرتوں کا بوجھ
کافی نہیں ہے سر پہ گُناہوں کا بار کیا
بعدِ فنا فضول ہے نام و نشاں کی فکر
جب ہم نہیں رہے تو رہے گا مزار کیا
اعمال کا طلسم ہے نیرنگ زندگی
تقدیر کیا ہے، گردشِ لیل و نہار کیا
انساں کے بغض و جہل سے دُنیا تباہ ہے
طوفاں اُٹھارہا ہے، مشتِ غبار کیا
|