* دل ہی بجھا ہوا ہو تو لطفِ بہار کیا *
غزل
٭……برج نارائن چکبست
دل ہی بجھا ہوا ہو تو لطفِ بہار کیا
ساقی ہے کیا، شراب کیا، سبزہ زار کیا
یہ دل کی تازگی ہے، وہ دل کی فسردگی
اس گلشنِ جہاں کی خزاں کیا بہار کیا
دیکھا سرورِ بادہ ہستی کا خاتمہ
اب دیکھیں گے رنگ لائے اجل کا خمار کیا
دنیا سے لے چلا جو تو حسرتوں کا بوجھ
کافی نہیں ہے سر پہ گناہوں کا بار کیا
بعدِ فنا فضول ہے نام و نشاں کی فکر
جب ہم نہیں رہے تو رہے گا مزار کیا
اعمال کا طلسم ہے نیرنگِ زندگی
تقدیر کیا ہے ، گردشِ لیل و نہار کیا
انساں کے بغض و جہل سے دنیا تباہ ہے
طوفاں اُٹھا رہا ہے ، مشتِ غبار کیا
|