* جلوے مری نگاہ میں کون و مکاں کے ہیں *
غزل
٭……نواب مرزا خاں داغؔ دہلوی
جلوے مری نگاہ میں کون و مکاں کے ہیں
مجھ سے کہاں چھپیں گے وہ ایسے کہاں کے ہیں
کرتے ہیں قتل وہ طلبِ مغفرت کے بعد
جوتھے دعا کے ہاتھ وہی امتحاں کے ہیں
جس دن سے کچھ شریک ہوئی میری مشتِ خاک
اُس روز سے زمیں پہ ستم آسماں کے ہیں
کیسا جواب؟ حضرتِ دل ! دیکھئے ذرا
پیغامبر کے ہاتھ میں ٹکڑے زباں کے ہیں
کیا اضطرابِ شوق نے مجھ کو خجل کیا
وہ پوچھتے ہیں کہئے ارادے کہاں کے ہیں
عاشق تیرے عدم کو گئے کس قدر تباہ
پوچھا ہر ایک نے یہ مسافر کہاں کے ہیں
ہر چند داغؔ ایک ہی عیار ہے مگر
دشمن بھی تو چھٹے ہوئے سارے جہاں کے ہیں
|