* کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے *
غزل
٭……نواب مرزا خاں داغؔ دہلوی
کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے
مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے
کچھ تازگی ہو لذّتِ آزار کے لئے
ہردم مجھے تلاش نئے آسماں کی ہے
حسرت برس رہی ہے میرے مزار سے
کہتے ہیں سب یہ قبر کسی نوجواں کی ہے
قاصد کی گفتگو سے تسلّی ہو کس طرح
چھپتی نہیں وہ جو تیری زباں کی ہے
سن کر مرا فسانۂ غم اس نے یہ کہا
ہو جائے جھوٹ سچ، یہی خوبی بیاں کی ہے
کیوں کر نہ آئے خلد سے آدم زمین پر
موزوں وہیں وہ خوب ہے جو شے جہاں کی ہے
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
|