* ستم ہی کرنا، جفا ہی کرنا، نگاہِ ال *
غزل
٭……نواب مرزا خاں داغؔ دہلوی
ستم ہی کرنا، جفا ہی کرنا، نگاہِ الفت کبھی نہ کرنا
نہیں قسم ہے ہمارے سر کی، ہمارے حق میں کمی نہ کرنا
ہماری میّت پہ تم جو آنا، تو چار آنسو بہا کے جانا
ذرا رہے پاسِ آبرو بھی ، کہیں ہماری ہنسی نہ کرنا
لئے تو چلتے ہیں حضرتِ دل تمہیں بھی اُس انجمن میں لیکن
ہمارے پہلو میں بیٹھ کر تم ہمیں سے پہلو تہی نہ کرنا
ہوا ہے گر شوق آئینہ سے تورخ رہے راستی کی جانب
مثالِ عارض صفائی رکھنا، بہ رنگِ کاکل کجی نہ کرنا
وہ اک ہمارا طریقِ الفت، کہ دشمنوں سے بھی مل کے چلنا
وہ ایک شیوہ تیرا ستم گر، کہ دوست سے دوستی نہ کرنا
ہم ایک رستہ گلی کا اس کی دکھاکے دل کو ہوئے پشیماں
یہ حضرتِ خصر کو جتادو، کسی کی تم رہ بری نہ کرنا
بُری ہے اے داغؔ رہِ الفت ، خدا نہ لے جائے ایسے رستے
جو اپنی تم خیر چاہتے ہو، تو بھول کر دل لگی نہ کرنا
******* |