* دیکھتے ہیں *
دیکھتے ہیں
جو پنڈی والے ہیں، رستے میں کھل کے دیکھتے ہیں
لاہوریوں کا نہ پوچھو، دبل کے دیکھتے ہیں
پشاوری اسے دیکھیں تو، رل کے دیکھتے ہیں
کراچی والے کئی فٹ اچھل کے دیکھتے ہیں
بزرگوار جو دیکھیں تو کوئی بات نہیں
ستم تو یہ ہے کہ لونڈے بھی کل کے دیکھتے ہیں
تمھارے کہنے پہ بزنس بدل کے دیکھتے ہیں
چلو پھر آج پکوڑے ہی تل کے دیکھتے ہیں
اگر یہ سچ ہے کہ ہاتھوں کی میل ہے دولت
تو آؤ میل بھرے ہاتھ مل کے دیکھتے ہیں
|