* کاٹتے ہیں پیڑو ں کو آشیاں جلاتے ہی *
(احتشام اختر( کوٹہ
غزل
کاٹتے ہیں پیڑو ں کو آشیاں جلاتے ہیں!
گلستاں کے رکھ والے گلستاں جلاتے ہیں
چند روز پہلے تو جشن تھا بہارو ں کا
آج خشک پتوں کو ہم یہاں جلاتے ہیں
سوچ ان کی کیسی ہے کیسے ہیں یہ دیوانے
اک مکان کی خاطر سو مکاں جلاتے ہیں
ہم نہیں ہیں پردیسی ہم تو ہیں وہ دل والے
جو اتر کے ساحل پر کشتیاں جلاتے ہیں
گھر میں رہنے والوں نے سارے گھڑ اجاڑے ہیں
خود بسانے والے ہی بستیاں جلاتے ہیں
ان کی یاد آنے سے ہو گئے دئے روشن
آنسوئوں کے یہ دیپک ہم کہاں جلاتے ہیں
یہ بہو بھی ان کی ہیں بیٹیاں بھی ان کی ہیں
لوگ کیسے ظالم ہیں بیٹیاں جلاتے ہیں
٭٭٭
|