اعجاز عبید ؔ صاحب کی ایک غزل
کبھی تو دھوپ کبھی ابر کی رِدا مانگے
یہ کشتِ غم بھی عجب موسم و ہوا مانگے
فقیر جھولی کی کلیاں لٹانے آیا ہے
امیر شہر کو ڈر ہے نہ جانے کیا مانگے
کبھی ہو دورِ قناعت تو حالِ بد میں بھی خوش
جو مانگنے پہ دل آئے تو بارہا مانگے
قدم رکیں تو لہو کا بہاؤ رک جائے
شکستہ پا بھی پہاڑوں کا سلسلہ مانگے
میں جس تلاش میں تھک کر خموش بیٹھ رہا
وہ مل گیا ہے خزینہ مجھے بِنا مانگے
جو میرے ہاتھوں میں ہاتھ آ گئے وہ رنگ بھرے
یہ دل کہ بھاگتے لمحوں کو تھامنا مانگے
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸