* زادِ راہ *
زادِ راہ
طویل رات نے آنکھوں کو کردیا بے نور
کبھی جو عکسِ سحر تھا سراب نکلا ہے
سمجھتے آئے تھے جس کو نشان منزل کا
فریب خوردہ نگاہوں کا خواب نکلا ہے
تھکن سے چور ہیں آگے بڑھیںکہ لَوٹ آئیں
چھپے ہوئے ہیں اندھیروں میں وسوسے کیا کیا
ہر ایک خضر پہ رہزن کا شک گزرتا ہے
ہر آستین میں خنجر دکھائی دیتا ہے
پرے سرکتا ہی جائے گا کیا سحر کا افق
ہماری جرأتِ آغاز بھول تھی شاید
ہمارے ہاتھ میں امید کا چراغ نہیں
یہ وہ چراغ تھا جس پر ہمیشہ رکھتے تھے
ہم اپنے سنگ سے، آہن سے، عزم کا سایہ
وہی تو تھا دلِ خستہ کا ایک سرمایہ
خلوص اور یقیں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے
لٹے ہیں ایسے کہ ہم اعتبار کھو بیٹھے
فہمیدہ ریاض
Karachi
(Pakistan)
Mob: xxxxxxxxxx
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
+++
|