* پتھر کی زبان *
پتھر کی زبان
اسی اکیلے پہاڑ پر تو مجھے ملا تھا
یہی بلندی ہے وصل تیرا یہی ہے پتھر مری وفا کا
اجاڑ، چٹیل، اداس، ویراں
مگر میں صدیوں سے
اس سے لپٹی ہوئی کھڑی ہوں
پھٹی ہوئی اوڑھنی میں سانسیں تری سمیٹیں
ہوا کے وحشی بہائو پر اڑ رہا ہے دامن
سنبھالا لیتی ہوں پتھروں کو گلے لگاکر
نکیلے پتھرجو قوت کے ساتھ
میرے سینے میں اتنے گہرے اتر گئے ہیں
کہ میرے جیتے لہو سے
سب آس پاس رنگین ہوگیا ہے
مگر میں صدیوں سے
اُس سے لپٹی ہوئی کھڑی ہوں
اور ایک اونچی اڑان والے پرندے کے ساتھ
تجھ کو پیغام بھیجتی ہوں
تو آکے دیکھے تو کتنا خوش ہو
کہ سنگریزے تمام یاقوت بن گئے ہیں
دمک رہے ہیں، گلاب پتھر سے اُگ رہا ہے!
فہمیدہ ریاض
Karachi
(Pakistan)
Mob: xxxxxxxxxx
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
+++ |