* آج جانے کی ضِد نہ کرو *
آج جانے کی ضِد نہ کرو
آج جانے کی ضِد نہ کرو
یوں ہی پہلو میں بیٹھے رہو
ہائے مر جائیں گے ، ہم تو لُٹ جائیں گے
ایسی باتیں کِیا نہ کرو
آج جانے کی ضِد نہ کرو
تُم ہی سوچو ذرا کیوں نہ روکیں تمہیں
جان جاتی ہے جب اُٹھ کے جاتے ہو تُم
تُم کو اپنی قسم جانِ جاں
بات اتنی میری مان لو
آج جانے کی ضِد نہ کرو
وقت کی قید میں زندگی ہے مگر
چند گھڑیاں یہی ہیں جو آزاد ہیں
اِن کو کھو کر ابھی جانِ جاں
عمر بھر نہ ترستے رہو
آج جانے کی ضِد نہ کرو
کتنا معصوم رنگین ہے یہ سماں
حُسن اور عشق کی آج معراج ہے
کل کی کس کو خبر جانِ جاں
روک لو آج کی رات کو
آج جانے کی ضِد نہ کرو
گیسوؤں کی شِکن ہے ابھی شبنمی
اور پلکون کے سائے بھی مدہوش ہیں
حسنِ معصوم کو جانِ جاں
بے خودی میں نہ رُسوا کرو
آج جانے کی ضِد نہ کرو
فیاض ہاشمی
|