* تم آئے ہو نہ شب انتظار گذری ہے *
غزل
٭……فیض احمد فیض
تم آئے ہو نہ شب انتظار گذری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے
جنوں میں جتنی بھی گزری بکار گزری ہے
اگرچہ دل پہ خرابی ہزار گزری ہے
ہوئی ہے حضرتِ ناصح سے گفتگو جس شب
وہ شب ضرور سرکوئے یار گزری ہے
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
نہ گل کھلے ہیں نہ ان سے ملے ہیں نہ مَے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے
چمن میں غارت گلچیں سے جانے کیا گزری
قفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے
**** |