* آج یوں موج در موج غم تھم گیا، اس طرح & *
غزل
٭……فیض احمد فیض
آج یوں موج در موج غم تھم گیا، اس طرح غمزدوں کو قرار آگیا
جیسے خوشبوئے زلف بہار آگئی جیسے پیغامِ دیدار یار آگیا
جس کی دید و طلب وہم سمجھتے تھے ہم، روبرو پھر سرِ راہ گزار آگیا
صبح فردا کو پھر دل ترسنے لگا، عمر رفتہ ترا اعتبار آگیا
رُت بدلنے لگی رنگِ دل دیکھنا، رنگِ گلشن سے اب حال کھلتا نہیں
زخم چھلکا کوئی یا کوئی گل کھلا،اشک امڈے کہ ابرِ بہار آگیا
خون عشّاق سے جام بھرنے لگے، دل سلگنے لگے داغ جلنے لگے
محفل درد پھر رنگ پر آگئی، پھر شبِ آرزو پر نکھار آگیا
سرفروشی کے انداز بدلے گئے، دعوتِ قتل پر مقتل شہر میں
ڈال کر کوئی گردن میں طوق آگیا، لاد کر کوئی کاندھے پہ دار آگیا
فیض کیا جانئے یارکس آس پر، منتظر ہیں کہ لائے گا کوئی خبر
مَے کشوں پر ہوا محتسب مہر باں، دلفگاروں پہ قاتل کو پیار آگیا
**** |