* گلوں میں رنگ بھردے بادِ نو بہار چل *
غزل
٭……فیض احمد فیض
گلوں میں رنگ بھردے بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آئو کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اداس ہے یار وصبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
کبھی تو صبح ترے کُنجِ لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے
بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
مقام فیضؔ کوئی راہ میں نہ جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
***** |