* کچھ محتسبوں کی خلوت میں کچھ واعظ ک *
غزل
٭……فیض احمد فیض
کچھ محتسبوں کی خلوت میں کچھ واعظ کے گھر جاتی ہے
ہم بادہ کشوں کے حصے کی اب جام میں کم کم آتی ہے
یوں عرض و طلب سے کب اے دل پتھر دل پانی ہوتے ہیں
تم لاکھ رضا کی خو ڈالو کب خوئے ستمگر جاتی ہے
بیداد گرو ں کی بستی ہے یاں دادکہاں خیرات کہاں
سر پھوڑتی پھرتی ہے ناداں فریاد جو دَر دَر جاتی ہے
ہاں، جی کے زیاں کی ہم کو بھی تشویش ہے لیکن کیا کیجئے!
ہر راہ جو اُدھر کو جاتی ہے مقتل سے گزر کر جاتی ہے
اب کوچۂ دلبر کا رہرو رہزن بھی بنے تو بات بنے
پہرے سے حد ٹلتے ہی نہیں اور رات برابر جاتی ہے
ہم اہلِ قفس تنہا بھی نہیں، ہر روز نسیمِ صبح وطن
یادوں سے معطر آتی ہے، اشکوں سے منور جاتی ہے
&&&&&&& |