* کڑی تھی دھوپ ، سر چکرا رہا تھا *
غزل
کڑی تھی دھوپ ، سر چکرا رہا تھا
میں بھوکا شخص تھا گھبرا رہا تھا
تمہارا شہر کیا تھا ، کیا بتائوں
تماشہ ہر کوئی دکھلا رہا تھا
تھے اُس کے ہاتھ میں کشکول لیکن
وہ مہر و ماہ کو شرما رہا تھا
انا کا سانپ میں نے مار ڈالا
بہت نقصان یہ پہنچا رہا تھا
امیرِ شہر سے یہ کون پوچھے!
ستم کیوں مفلسوں پر ڈھا رہا تھا
اکیلی تھی کوئی لڑکی سڑک پر
بدن جس کا مجھے للچا رہا تھا
یہ کیسا خواب میں نے فیض دیکھا
سمندر میری جانب آرہا تھا
فیض الامین فیض
Shahi Mahalla, Star Chamber, Kulti
Burdwan (W.B)
Mob: 9735100243 / 3416418647
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|