* تو نے جو خواب توڑ ڈالے تھے *
تو نے جو خواب توڑ ڈالے تھے
میں نے مشکل سے وہ سنبھالے تھے
خواب ، خوشبو، اداسیاں ، سپنے
یہ مری ذات کے حوالے تھے
اس کو جلدی تھی، چل دیا ورنہ
کالے بادل تو ٹلنے والے تھے
ان کے تیور بدل گئے کیسے
وہ تو دنیا بدلنے والے تھے
دوست ایسے خیال میں آئے
آستیں میں جو پلنے والے تھے
تخت کے ساتھ جو ملے ساتھی
بخت کے ساتھ ڈھلنے والے تھے
کوہکن کو یقیں تھا پتھر سے
نرم چشمے نکلنے والے تھے
ایک پل میں بدل گیا منظر
ہم ابھی آنکھ ملنے والے تھے
|