* وصل کا گیت سناتے کیوں ہو *
غزل
٭……فاخرہ بتولؔ
وصل کا گیت سناتے کیوں ہو
ہجر کا درد چھپاتے کیوں ہو
بعد میں نیند جو قتل کرو گے
پہلے خواب جگاتے کیوں ہو
کرتا ہو جو شور آنکھوں میں
نام وہ لب پر لاتے کیوں ہو
پہلے خود ہی دل دے بیٹھے
اب احسان جتاتے کیوں ہو
کہہ دو مجھ کو بھول گئے تم
کہنے سے گھبراتے کیوں ہو
دیس کو خود پردیش بنایا
بولو اب پچھتاتے کیوں ہو
پلٹ کے جو گھائل کر ڈالے
ایسا تیر چلاتے کیوں ہو
سپنا تو سپنا ہوتا ہے
آگ کو برف بتاتے کیوں ہو
**** |