* لوگ کیوں بس کے اجڑتے ہیں کبھی سوچا *
غزل
٭……فاخرہ بتولؔ
لوگ کیوں بس کے اجڑتے ہیں کبھی سوچا ہے
کس لئے جاں سے گذرتے ہیں کبھی سوچا ہے
کیسے پلکوں کی لرزتی ہوئی منڈیروں پر!
سینکڑوں دیپ چمکتے ہیں کبھی سوچا ہے
گو بہاروں میں چمن ہوتے ہیں آباد مگر
پھول پامالی سے ڈرتے ہیں کبھی سوچا ہے
رنگ چہرے کا بدل جاتا ہے پل بھر کے لئے
لوگ ججب بات بدلتے ہیں کبھی سوچا ہے
جو نظر آتے ہیں آئینہ سی پوشاکوں میں
وہ بھی مٹی میں اترتے ہیں کبھی سوچا ہے
نارسائی سے نہیں مرنا کو ئی، مان لیا
دل میں آرے سے جو چلتے ہیں کبھی سوچا ہے
****** |