* زندگانی سے پیار بھی تو نہیں *
زندگانی سے پیار بھی تو نہیں
موت کا انتظار بھی تو نہیں
کون کہتا ھے کٹ نہ پائےگی یہ
رات ھے راہگزار بھی تو نہیں
اُس گلی میں چلے توجائیں مگر
زندگی بار بار بھی تو نہیں
ھم نے دیکھاکہاں ھے سود و زیاں
پیار ھے کاروبار بھی تو نہیں
پیار دولت ھے،یہ صحیح ھے مگر
باخدا ھم کو پیار بھی تو نہیں
خودکلامی سے تھک چکے ھیں بہت
کوئی اب رازدار بھی تو نہیں
جان دینے کا ڈر ھے کس کو مگر
سامنے کوئی دار بھی تو نہیں
یہ محبت فضول شے ھے بتول !
پہلا پہلا خُمار بھی تو نہیں
(فاخرہ بتول)
|