* پھر سے پیار کا دھوکہ کھایا جا سکتا *
غزل
پھر سے پیار کا دھوکہ کھایا جا سکتا تھا
دل کا کیا ہے دل بہلایا جا سکتا تھا
کیوں واپس نہ آیا جاکر وہ جانے
لیکن اُس کے پاس تو جایا جا سکتا تھا
گر نہ ہوتا موم کی صورت اپنا دل
غم کے سورج سے ٹکرایا جا سکتا تھا
ایک تمہارا ساتھ اگر مل جاتا تو
ساری دنیا کو ٹھکرایا جا سکتا تھا
لوگوں نے مجرم ٹھہرایا ، مان لیا
آخر کس کو سمجھایا جا سکتا تھا
لے ڈوبا جب آنکھوں کو طوفان بتول
کیسے دل کا شہر بچایا جا سکتا تھا
فاخرہ بتول
Rawalpindi
(Pakistan)
Mob: xxxxxxxxxx
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
+++
|