* کون اس شہر سے اس شہر تلک ساتھ چلے *
کون اس شہر سے اس شہر تلک ساتھ چلے
کون قبروں میں بلکتی ہوئی ویرانی سنے
یہ بہت ہے کہ میری موت پہ روئے ہیں میرے چاہنے والے کتنے
ورنہ میں موت زدہ آدمی کیا کر لیتا
شکل افسردہ بنائی ہے جو کوشش سے کسی نے تو مہر بانی ہے
قبر کھودی ہے کشادہ تو یہ احسان ہے مجھ میت پر
آب جھڑکا ہے، دعا مانگی ہے
اور اگربتیاں سلگائی ہیں گل پھینکے ہیں
اور پھونکا ہے بہت پڑھ کے کلام
کاش اک بار کوئی مر کے کبھی جی اٹھے
ایک اک ذرے پہ سو بوسہ دے
ایک اک ہاتھ پہ بیعت کر لے
آج جن کندھوں پہ اس شہر تلک آیا ہوں
موت کی ساری جمع پونجی میری ان پہ نثار
موت کی دنیا الگ ہوتی ہے
موت کا شہر الگ ہوتا ہے
موت کا گھر بھی الگ ہوتا ہے
ساتھ مر کر بھی کوئی ساتھ نہیں رہ سکتا
بات اگر ہجر کی ہو
بات اگر ہجر کے درد کی ہو
بات کے ساتھ کہاں رات چلے
کون اس شہر سے اس شہر تلک ساتھ چلے
***************** |