* مرے خیال کے برعکس وہ بھی کیسا ہے *
مرے خیال کے برعکس وہ بھی کیسا ہے
میں چھاؤں چھاؤں سی لڑکی وہ دھوپ جیسا ہے
ہزار شور میں رہنے کے باوجو د اس کا
وہ بات کرنے کا انداز ایک لے سا ہے
جو تتلیوں کے پروں سے بنایا تھا چہرہ
کبھی نہ دیکھ سکی اس کا رنگ کیسا ہے
تمہیں گلاب کےکھلنے کی کیا صدا آتی
تمہارے گرد تو ہر وقت صرف پیسا ہے
تپش سے جلنے لگی ہیں یہ بوندیں بارش کی
کہ اجلی دھوپ کا موسم بھی اک سزا سا ہے
میں اپنےدل کی گواہی کو کیسے جھٹلاؤں
جو کہہ رہا ہے مرا دل وہ بالکل ایسا ہے
یونہی نہیں تمہیں نیناں نے روشنی لکھا
تمہارےساتھ کٹھن راستہ بھی طے سا ہے
|