* آسماں کےرنگوں میں رنگ ہےشہابی سا *
آسماں کےرنگوں میں رنگ ہےشہابی سا
دھیان میں ہے پھر چہرہ ایک ماہتابی سا
منظروں نےکرنوں کا پیرہن جو پہنا ہے
میں نےاس کا رکھا ہے نام آفتابی سا
تم عجیب قا تل ہو روح قتل کرتے ہو
داغتے ہو پھر ماتھا چاند کی رکابی سا
کوئی کہہ رہا تھا مو ت ٹوٹنے سے آئے گی
گل نے تو بکھر کے باغ کردیا گلا بی سا
پھر ہوا چلی شاید بھولے بسرے خوابوں کی
دل میں اٹھ رہا ہے کچھ شوق اضطرابی سا
تلخیوں نے پھر شاید اک سوال دوہرایا
گھل رہا ہے ہو نٹوں میں ذائقہ جو ابی سا
حرف پیار کے سارے آگئے تھے آنکھوں میں
جب لیا تھا ہاتھوں میں چہرہ وہ کتابی سا
بوند بوند ہوتی ہے رنگ و نور کی برکھا
جب بھی موسم آیا ہے نیناں میں شرابی سا
|