* ناروا ہے سخن شکایت کا *
ناروا ہے سخن شکایت کا
وہ نہیں تھا میری طبیعت کا
دشت میں شہر ہو گئے آباد
اب زمانہ نہیں ہے وحشت کا
اب مجھے دھیان ہی نہیں آتا
اپنے ہونے کا ، اپنی حالت کا
تجھ کو پا کر زیاں ہوا ہم کو
تُو نہیں تھا ہماری قیمت کا
آگئی درمیان روح کی بات
ذکر تھا جسم کی ضرورت کا
زندگی کی غزل تمام ہوئی
قافیہ رہ گیا محبت کا
کہتے ہیں انتہائے عشق جسے
اک فقط کھیل ہے مروت کا
مر گئے خواب سب کی آنکھوں کے
ہر طرف گلہ ہےحقیقت کا
وقت ہے اور کوئ کام نہیں
بس مزہ لے رہا ہوں فرصت کا
بس اگر تذکرہ کروں تو کروں
کس کی زلفوں کا کس کی قامت کا
صبح سے شام تک مری دنیا
ایک منظر ہے اس کی رخصت کا
کیا بتاوؑں کہ زندگی کیا تھی
خواب تھا جاگنے کی حالت کا
******* |