* میں رقص کناں حلقہ ء زنجیر سے نکلا *
میں رقص کناں حلقہ ء زنجیر سے نکلا
ایک اور مقدر میری تقدیر سے نکلا
اِس عالم ِ وحشت سے نکلنا تھا مجھے بھی
گریہ کی طرح میں دل ِ دلگیر سے نکلا
دُنیا تیری نسبت سے ہی رنگین نہیں ہے
میں آج ترے نام کی جاگیر سے نکلا
پھر آج طبیعت میں بحالی کی کمی ہے
پھر آج ستارہ کوئی تاخیر سے نکلا
تاریخ کے اوراق پہ میں حرف ِ غلط ہوں
میرا یہی کردار اساطیر سے نکلا
ڈوبا جو لہو میں تو نظر آیا سبھی کو
میں خود کو مٹاتی ہوئی تعمیر سے نکلا
وہ چاندنی راتوں میں نکلتا نہیں لیکن
پانی پہ اُبھرتی ہوئی تصویر سے نکلا
۔۔۔۔ فاضل جمیلی
|