* اب دَورِ آسماں ہے نہ دورِ حیات ہے *
غزل
٭……رگھو پتی سہائے فراقؔ
اب دَورِ آسماں ہے نہ دورِ حیات ہے
اے دردِ ہجراں تو ہی بتا کتنی رات ہے
ہر کائنات سے یہ الگ الگ کائنات ہے
حیرت سرائے عشق میں دن ہے نہ رات ہے
جینا جو آگیا تواجل بھی حیات ہے
اور یوں تو عمرِ خضر بھی کیا بے ثبات ہے
ہستی کو جس نے زلزلہ ساماں بنا دیا
وہ دل قرار پائے مقدر کی بات ہے
کیوں انتہائے شوق کہتے ہیں بے خودی
خورشید ہی کی آخری منزل تو رات ہے
گم ہو کے ہر جگہ میں خود رفتگانِ عشق
اُن کی بھی اہلِ کشف و کرامات ذات ہے
توڑا ہے لا مکاں کی حدوں کو بھی عشق نے
زندانِ عقل تیری تو کیا کائنات ہے
ہستی بجز فنائے مسلسل کے کچھ نہیں
پھر کس لئے یہ فکرِ قرار و ثبات ہے
**** |