* سکوتِ شام مٹائو بہت اندھیرا ہے *
غزل
٭……رگھو پتی سہائے فراقؔ
سکوتِ شام مٹائو بہت اندھیرا ہے
سخن کی شمع جلائو بہت اندھیرا ہے
دیارِ غم میں دل بے قرار چھوٹ گیا
سنبھل کے ڈھونڈنے جائو بہت اندھیرا ہے
یہ رات وہ کہ سوجھے جہاں نہ ہاتھ کو ہاتھ
خیالو دُور نہ جائو بہت اندھیرا ہے
لٹوں کو چہرے پہ ڈالے وہ سو رہا ہے کہیں
ضیائے رُخ کو چُرائو بہت اندھیرا ہے
ہوائے نیم شبی ہو کہ چادرِ انجم
نقاب رُخ سے اٹھائو بہت اندھیرا ہے
شبِ سیاہ میں گم ہو گئی ہے راہِ حیات
قدم سنبھل کے اٹھائو بہت اندھیرا ہے
گذشتہ عہد کی یادوں کو پھر کرو تازہ
بجھے چراغ جلائو بہت اندھیرا ہے
تھی ایک اُچٹتی ہوئی نیند زندگی اس کی
فراقؔ کو نہ جگائو بہت اندھیرا ہے
*** |