* آج بھی قافلۂ عشق رواں ہے کہ جو تھا *
غزل
٭……رگھو پتی سہائے فراقؔ
آج بھی قافلۂ عشق رواں ہے کہ جو تھا
وہی میل اور وہیں سنگِ نشاں ہے کہ جو تھا
آج بھی عشق لتا دل و جاں ہے کہ جو تھا
آج بھی حسن وہی جنسِ گراں ہے کہ جو تھا
پھر ترا غم وہی رسوائے جہاں ہے کہ جو تھا
پھر فسانہ بحدیث و گراں ہے کہ جو تھا
دل سوزاں سے ہے پرنور شبستاں وجود
عشق پھر شمع محراب جہاں ہے کہ جو تھا
منزلیں عشق کی تاحدِّ نظر سونی ہیں
کوئی رہرو یہاں ہے نہ وہاں ہے کہ جو تھا
عافیت کا بھی محبت میں تھا اک دور مگر
پھر وہی اس میں زیانِ دل و جاں ہے کہ جو تھا
ظلمت و نور میں کچھ بھی نہ محبت کو ملا
آج تک دھندلکے کا سماں ہے کہ جو تھا
یوں تو اس دور میں بے کیف سی ہے بزمِ حیات
اک ہنگامہ سرِ رطلِ گراں ہے کہ جو تھا
رات بھر حُسن پہ آئے بھی گئے بھی سور نگ
شام سے عشق ابھی تک نگراں ہے کہ جو تھا
آنکھ جھپکی کہ اُدھر ختم ہوا روزِ وصال
پھر بھی اس دن پہ قیامت کا گماں ہے کہ جو تھا
تیرہ بختی نہیں جاتی دلِ سوزاں کی فراقؔ
شمع کے سپر وہی آج دھواں ہے کہ جو تھا
|