* رات آدھی سے زیادہ گئی تھی سارا عال *
غزل
٭……رگھو پتی سہائے فراقؔ
رات آدھی سے زیادہ گئی تھی سارا عالم سوتا تھا
نام ترا لے لے کر کوئی درد کا مارا روتا تھا
چارہ گر ویہ تسکیں کیسی میں بھی ہوں اس دُنیا میں
اُن کو ایسا درد و کب اٹھا جن کو بچنا ہوتا تھا
کچھ کا کچھ کہہ جاتا تھا میں فرقت کی بیتابی میں
سننے والے ہنس پڑتے تھے ہوش مجھے تب ہو تا تھا
تارے اکثر ڈوب چلے تھے رات کے رونے والوں کو
آنے لگی تھی نیند سی کچھ، دنیا میں سویرا ہوتا تھا
ترکِ محبت کرنے والو کون ایسا جگ جیت لیا
عشق کے پہلے کے دن سوچو کون بڑا سکھ ہوتا تھا
اُس کے آنسو کس نے دیکھے اس کی آہیں کس نے سنیں؟
چمن چمن تھا حُسن بھی لیکن دریا دریا روتا تھا
پچھلا پہر تھا ہجر کی شب کا جاگتا رب سوتا سنسار
***** |