* وہ مایوسانِ غم سے وقت کی گھاتیں نہ *
غزل
٭……رگھو پتی سہائے فراقؔ
وہ مایوسانِ غم سے وقت کی گھاتیں نہیں ہوتیں
فراقؔ اب وہ سحر نا آشنا راتیں نہیں ہوتیں
ہم آہنگی بھی تیری دوریٔ قربت نما نکلی
کہ تجھ سے مل کے بھی تجھ سے ملاقاتیں نہیں ہوتیں
وہ عالم اور ہی ہے جس میں میٹھی نیند آجائے
خوشی اور غم میں سونے کے لئے راتیں نہیں ہوتیں
زبان و گوش کی ناکامیوں کا کچھ ٹھکانا ہے
کہ باتیں ہو کے بھی تجھ سے کبھی باتیں نہیں ہوتیں
سمجھ کچھ راز حُسن و عشق کے شبہائے ہجراں میں
کہ رونے کے لئے یہ دکھ بھری راتیں نہیں ہوتیں
مہک اٹھتے تھے گلشن چار جھونکوں چار چھینٹوں میں
ہوائیں وہ نہیں چلتیں وہ برساتیں نہیں ہوتیں
فراقؔ اے کاش سننے والوں کے سینوں میں دل ہوتا
حقیقت ہوتی ہے اشعار میں باتیں نہیں ہوتیں
****** |