* جہاں کو دے گی محبت کی تیغ آب حیات *
جہاں کو دے گی محبت کی تیغ آب حیات
ابھی کچھ اور اسے زہر میں بجھا ئے جا
اس اضطراب میں راز فروغ پنہا ں ہے
طلوعِ صبح کے مانند تھرا تھرائے جا
نگاہِ یار ترا یو ں ہے تو ہے پیام کچھ اور
مگر کرم بھی کئے جا، ستم بھی ڈھائے جا
وہ کیمیا ہی سہی پہلے خاک ہونا ہے
ابھی تو سوزِ محبت کی آنچ کھائے جا
نہ اور کھول ابھی نیم باز آنکھوں کو
ترے نثار یہ جادو ابھی جگائے جا
شباب پر ہے زمانہ ترے ستم کے نثار
اُبھر رہا ہوں کئی رنگ سے مٹائے جا
خلوص عشق کو کرما ورائے غفلت و ہوش
کسی کو یاد کے پردے میں کچھ بھلائے جا
٭٭٭
|