* اک نظر دیکھ سکیں تجھ کویہی لاگ ہے آ *
فراق گورکھپوری
غزل
اک نظر دیکھ سکیں تجھ کویہی لاگ ہے آج
بیٹھے ہیں درپہ ڈھئی دے کے کوئی کام نہ کاج
کنج اک انداز سے ہر تاج گدایا نہ ہے
ہم فقیرانِ حرم رکھتے ہیں شاہان مزاج
تجھ سے کھلنا کوئی سیکھے کہ سیرا پا توہے
غنچہ لب ،غنچہ دہن، غنچہ صفت، غنچہ مزاج
نقش پابن کے اٹھیں تیرے سر راہ گذار
کہ ترے خاک نشینوں کی یہی ہے معراج
ہے کھلا جسم نگاریں کا ہراک بند قبا
یوں ہ دیکھ آئینہ اے دوست کر ان آنکھوں کی لاج
کام کچھ آنہ سکی اس میں مسیحائی غیر
بات یہ ہے کہ محبت کا محبت ہے علاج
دیکھ وہ ٹوٹ چلا خواب گراں ماضی کا
کروٹیں لیتی ہے تاریخ بدلتا ہے سماج
دل غمدیدہ مراآئینہ مستقبل
شکن ابرو کی ہے یا محفل فردا کاسراج
کتنے دیر وزنگاہوں میں ہیں کتنے فردا
میرے حیرت کدہ عشق میں ہے آج ہی آج
ہائے وہ عشق کہ دولت کی کوئی حد نہ حساب
وائے وہ حسن کہ حاصل جسے کپڑا نہ اناج
حضرت عشق سے بعد ایک زمانے کے ملے
وہی چپ چپ وہی گم سم وہی بیگا نہ مزاج
**** |