غزل
مگر مچھ کی صورت وہ ھم دیکھتے ھیں
سیاست میں جو چشم نم دیکھتے ھیں
جو زندہ ھیں دھرتی پہ اپنے وطن میں
یہ خود پر خدا کا کرم دیکھتے ھیں
وڈیروں کے دور حکومت میں ھم تو
ستم ہی ستم پر ستم دیکھتے ہیں
مرا سر مرے جسم پر کب وہ چاھیں
لہو میں جو ڈوبا قلم دیکھتے ھیں
قلم جن کو دینا تھا گلشن میں اپنے
گلابوں کے ھاتوں میں بم دیکھتے ھیں
گزرتے نہیں اس گلی سے بھی ظالم
جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ھیں
خوشی کی تمنا ھے اپنی عبث گل
کہ دھلیز پر غم ھی غم دیکھتے ھیں
گل بخشالوی
--
Warm regards,
Gul Bakhshalvi
Chief Editor Kharian Gazette