* آج پھر پلکوں پہ کیوں جشن نمو کا نکل *
غزل
آج پھر پلکوں پہ کیوں جشن نمو کا نکلا
دل میں جو خار چبھا تھا سو کبھو کا نکلا
خاک میں کیسے ملاکر اُسے رسوا کرتا
میری آنکھوں میں جو دریا تھا وضو کا نکلا
جس سے امید تھی وہ میری طرف بولے گا
وہ بھی نکلا تو طرفدار عدو کا نکلا
میں نے چاہا کہ نگاہوں سے گرادوں اُس کو
کیا کروں رشتہ مرا اُس سے لہو کا نکلا
اتنے حالات نے زخموں سے بھرا تھا اس کو
کوئی گوشہ نہ مرے دل میں رفو نکلا
زندگی بھر تمہیں چاہا تمہیں آنکھوں میں رکھا
تم ہی کہہ دو کہ کبھی لفظ بھی تو کا نکلا
آخرش راہ میں وہ آبلہ پا بیٹھ گیا
دل کا ارمان حبیب آج سبھو کا نکلا
حبیب ہاشمی
464, G.T.Road, Howrah-711102
Mob: 9433588711
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|