* کیا سمجھتے ہیں خود کو دہشت گرد *
(حفیظ انجم کریم نگری( کریم نگر
قطعہ بند نظم
کیا سمجھتے ہیں خود کو دہشت گرد
بے گناہوں کی جان لیتے ہیں
کل تذبذب مبتلا ہوں گے
کاغذی شیر ہیں یہ نام کے مرد
ہر طرف دیکھئے کٹے سر ہیں
شہر بھر میں لٹے لٹے گھر ہیں
کب کہاں بم پھٹے گا کیا ہے پتہ
اب تو حالات بد سے بدتر ہیں
مائیں بیٹیوں کو رو رہی ہیں یہاں
عورتوں کے سہاگ اجڑے ہیں
کہہ رہا ہے یہ لاشوں کا انبار
کیا محافظ ہمارے اندھے ہیں
کتنی مائوں کے پیٹ کاٹے گئے
زندہ انسان ہیں جلائے گئے
کیا بتائوں میں خانہ ویرانی
کتنے ماں باپ کے سہارے گئے
جان لیتے ہیں جان دیتے ہیں
اس پہ دعویٰ ہے ہم ہی اچھے ہیں
اس کو انسانیت نہیں کہتے
ان سے بہتر تو بس درندے ہیں
امن اس طرح لا نہیں سکتے
اس کو دہشت سے پا نہیں سکتے
اور الجھتے ہی جائو گے سن لو!
الجھنوں کو مٹا نہیں سکتے
٭٭٭
|