* کیوں آبروئے دیدۂ تر کھو رہے ہیں لو *
کیوں آبروئے دیدۂ تر کھو رہے ہیں لوگ
اندھوں کی انجمن ہے جہاں رو رہے ہیں لوگ
اللہ رہے یہ بے خبری اہل ہوش کی
سورج نکل چکا ہے مگر سو رہے ہیں لوگ
کس کے لہو کا داغ ہے جو چھوٹتا نہیں
ہاتھوں کو بار بار یہ کیوں دھو رہے ہیں لوگ
شعلے مزاج پوچھیں گے اُن کا بھی ایک دن
میرا مکاں جلا کے جو خوش ہو رہے ہیں لوگ
دورِ شکست و ریخت میں کچھ بھی نہیں بچا
رشتہ بھی ایک بوجھ ہے جو ڈھو رہے ہیں لوگ
کیا یہ وہی بہار ہے سچ کہئے گا حفیظ
جس کے لئے خدا سے دعا گو رہے ہیں لوگ
٭٭٭
|